جگر خون نہیں بناتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
جگر خون نہیں بتاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! تحریر وترتیب: ڈاکٹر سید حفیظ الرحمان (ہومیو پیتھک طریق علاج میں مرض کی نہیں مریض کی اہمیت ہوتی ۔ یہی وہ بنیادی نکتہ اور اصول ہے جسے اپنا کر ہمہ قسم کے امراض سے مریضوں کو چھٹکارہ دلایا جا سکتا ہے ۔ جبکہ مرض کے نام پر دی گئی ادویات نہ صرف یہ کہ بے کار ثابت ہوتی ہیں بلکہ اکثر امراض کو پیچیدہ بھی بنا دیتی ہیں ۔ یہی حال کمپاؤنڈ ادویات کا ہے، یہ بھی امراض کو پیچیدہ بنانے اور دبانے کا کام کرتے ہیں ۔ اگر کسی کمپاؤنڈ سے کوئی مریض شفا یاب ہو بھی جاتا ہے تو اسکا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ کمپاؤنڈ مفید تھا بلکہ اسکا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ مریض خوش قسمت تھا جو اس قسم کے کمپاؤنڈز استعمال کرنے کے باوجود مرض کے چنگل سے بچ نکلا ۔ کچھ لوگ شیرکے جبڑوں سے بھی تو بچ ہی نکلتے ہیں، اس سے شیر انسان دوست درندہ تو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کسی بھی عارضے کے علاج کی درست سمت یہ ہے کہ مرضیاتی علامات و کیفیات سے ہٹ کر مریض کے جذبات و احساسات ،نفسیاتی کیفیات اور ان اسباب و عوامل کی کھوج بین کی جائے، جنکے باعث مرض نے جنم لیا ۔ آپ نمی اور ہوا کا سد باب کیے بغیر لوہے کو زنگ آلود ہونے سے نہیں بچا سکتے ۔ انسان کی روح، دماغ اور جسم ایک اکائی کے طور پر کام کرتے ہیں ۔ با الفاظ دیگر انسان کے جذبات و احساسات اور ذہنی و نفسیاتی کیفیات انسانی صحت و کردار پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ مختلف اسباب و عوامل کےمنفی اثرات اس نارمل حیاتیاتی توازن و تناسب کو بگاڑ دیتے ہیں جسکی وجہ سےجسم میں مختلف امراض جنم لیتے ہیں ۔ شافی علاج وہی ہے جو اس بگڑے ہوئے توازن و تناسب کو بحال کردے۔ کسی مر جانے والے عزیز کے غم میں مبتلا دل کے مریض کا علاج اسکے دل کے کل پرزوں کا درست کرنا نہیں ، نہ ہی مرنے والے کو واپس لایا جا سکتا ہے ۔ اسکا درست علاج مریض میں غم و صدمہ کو برداشت کرنے کی سکت پیدا کرنا ہے ۔ جب یہ سکت پیدا ہو جاتی ہے مریض کو دل کے عارضے سے نجات مل جاتی ہے اور جسم کا ندرونی میکنزم اس صدمے سے ہونے والی توڑپھوڑ کو خود ہی درست کر لیتا ہے ۔ ہو میو پیتھک ادویات یہی کام کرتی ہیں ،یہ روح و جسم میں پیدا ہونے والے عدم تناسب کو درست کردیتی ہیں کوئی بھی ہومیو پیتھک دوا اس وقت تک کسی بھی مریض کی شافی دوا ثابت نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ مریض کی مجموعی علامات و کیفیات سے مماثل نہ ہو ۔ اکثر ادویات مرضیاتی علامات کی مماثل تو ہوتی ہیں لیکن مریض کو ذرا فائدہ نہیں پہنچاتیں ۔ مثلاً چیلیڈونیم کو لیجیے ، جگر کے بے شمار امراض کی علامات کی حامل ہے لیکن اس سے معمولی یرقان کو بھی درست نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ یہ مریض کی کیفیات سے مماثل نہ ہو ۔ آرسینک البم سادہ نزلہ زکام سے لیکر کینسر اور ایڈز جیسے موذی امراض کی علامات اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ، لیکن ہم اس سے ہومیو پیتھک کے اصول مماثلت کو نظر انداز کرکے ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ زیر نظر یہ کیس ہومیو پیتھک فلسفہ و سائنس کے اسی بنیادی نکتے اور اصول کا عکاس اور حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔) وہ چالیس پچاس سالہ خاتون ایک 25۔ 30 سالہ لڑکی کے ساتھ ویٹنگ بنچ پر بیٹھی میرے فارغ ہونے کی منتظر تھی جبکہ میں ایک ایسے بابے کے ساتھ سر کھپائی میں مصروف تھا جسے سنائی بھی اونچا دیتا تھا۔ وہ شائد ماں بیٹی تھیں یا ساس بہو ،انکے ساتھ تین چھوٹی چھوٹی شرارتی بچیاں بھی تھیں جنہیں دونوں نے بمشکل قابو کر رکھا تھا ۔ ایک تو ابھی چلنے پھرنے کے قابل نہیں تھی لیکن دوسری دو بچیاں کبھی ادھر بھاگتیں کبھی ادھر ۔ عمر رسیدہ خاتون بار بار بابے کو غصے بھری نظروں سے دیکھ رہی اور بور ہورہی تھی ۔ میں بابے سے فارغ ہوا تو وہ دونوں خواتین میری ٹیبل کے پاس آ بیٹھیں ۔ عمر رسیدہ خاتون نے بغیر کسی تمہید کے شکایت لگائی ؛ ،، ڈاکٹر صاحب ! زگر (جگر)خون نہیں بناتا اسکا علاج کروانا ہے ،، اسکا انداز ایسا تھا جیسے میں جگر کا افسر اعلیٰ ہوں اور جگر میرا ماتحت ہے ،مجھے اسکے انداز پر ہنسی آ گئی ۔ ،، کس کا ؟ ، ، میں نے خوش مزاجی سے پوچھا۔ اس خاتون نے اپنے ساتھ بیٹھی لڑکی کی طرف اشارہ کیا؛ ،، اس کا !،،۔ میں نے بھی از راہ تفنن ، رعب سے پوچھا؛ ،، کیوں نہیں بناتا ! ،، وہ بولی؛ ،، پتہ نئیں جی کیوں ؟ بڑےعلاج کروائے، ہر ڈاکٹر،حکیم کو دکھایا ، میٹھی گولیوں والے ڈاکٹروں کو بھی دکھایا پر زگر( جگر) خون نہیں بناتا!،، اسنے بتایا کہ ساتھ بیٹھی لڑکی اسکی بہو بھی ہے اور بھانجی بھی اور تینوں بچیاں اسکی پوتیاں ہیں ۔ میرے ہر سوال کا جواب ساس ہی دے رہی تھی جبکہ مریضہ یعنی اسکی بہو بلکل خاموش بیٹھی تھی۔ میں : کب سے بیمار ہیں ؟ ساس: سال چھ مہینے ہو گئے۔ میں : شادی کو کتنا عرصہ ہو ا؟ ساس: پانچ چھ سال تو ہو ہی گئے ہونگے؟ میں :کتنے بچے ہیں؟ ساس: یہی تین کڑیاں ہی کڑیاں ہیں جی ۔ میں : شادی سے پہلے صحت کیسی تھی ؟ ساس: دیکھنے میں تو ٹھیک ٹھاک تھی ۔ میں نے اس پیلی پھٹک نطر آنے والی لڑکی سے کہا ؛ ،، بیٹا ! آپ اپنا حال خود بتائیں نا ، اچھا یہ بتائیں بھوک کیسی ہے آپکی ؟کھانا باقاعدگی سے کھاتی ہیں،، لڑکی نے اجازت طلب نظروں سے ساس کی طرف دیکھا ، اس سے پہلے وہ کچھ بولتی ساس نے کہا ؛ ،، اللہ کا شکر ہے جی ! ہمارے گھر میں کھانے پینے کی کوئی کمی نہیں، ہماری فریج ،، فل (پھل) فروٹ ،، سے بھری رہتی ہے، تینوں ٹائم سب رج کے کھاتے ہیں ، پر اسے کچھ لگتا ہی نہیں ۔،، ،، بیٹا آپ بتائیں نا ،، میں نے لڑکی کو بولنے پر اکسایا۔ ،، جی کھانا تو کھاتی ہوں ، لگتی ہے بھوک !،، لڑکی پہلی بار ممنائی۔ میں: آپکے پیریڈز نارمل ہیں ؟ (لڑکی چپ) ساس: باقی سب ٹھیک ہے جی بس اسکا ،، زگر (جگر)،، خون نہیں بناتا اسکی کوئی دوائی دیں۔ میں: بی بی آپ ڈاکٹر ہیں؟آپ ذرا مریض کو اپنی کیفیت بتانے دیں۔ لیکن میرے ہر سوال کا جواب ساس ہی دیتی رہی ۔سر کھپائی سے صرف اتنا پتہ چلا کہ لڑکی کمی خون کا شکار ہے اسکا ایچ بی کم رہتا ہے ، ہومیو پیتھک سمیت ہر علاج آزما چکے ہیں لیکن نہ ایچ بی نارمل ہو تا ہے نہ کمزوری رفع ہوتی۔ اسے چکر آتے ہیں ،دل گھبراتا ہے، کبھی کبھی غشی کے دورے پڑتے ہیں۔ ساس نے رازداری سے یہ بھی بتایا کہ اسے ،، ،،باہروالی کسر،، یعنی جادو ٹونے یا جنات کا اثر بھی ہے جسکے لیے تعویذ گنڈے سے بھی مدد لی جارہی ہے لیکن پھر بھی ِ، زگر (جگر) خون نہیں بناتا ۔ لڑکی پڑھی لکھی تھی اور ایک پرائیویٹ سکول میں پرائمری سطح کے بچوں کو پڑہاتی تھی ، مالی لحاظ سے خوشحال تھے،میاں اپنے باپ کے ساتھ زمیندارا کرتا تھا ۔ ان علامات کی بنیاد پر میں اسے کیا دوا دیتا سوائے کسی ،، کمپاؤنڈٹانک،، کے، جو کہ میں کسی کرانک پیشنٹ کو نہیں دیتا۔ وہ سابقہ علاج کی تفصیل اور لیب رپورٹس بھی نہیں لائی تھیں چنانچہ میں نے انہیں اگلے دن سابقہ لیب رپورٹ لے کے دوبارہ آنے کا کہہ کر فارغ کردیا ۔ اگلے دن وہ اپنے میاں کے ساتھ آئیں، وہ ایک خوبصورت ، صحتمنداور تیز وطرار نوجوان تھا ۔لیکن انداز گفتگو وہی ماں والا تھا،جب میں نے خون کی کمی کی وجوہات جاننا چاہیں مثلاً سابقہ امراض، معدہ امعا کی خرابیاں،حیض سے متعلق عوارضات، بواسیر، لیکوریا وغیرہ وغیرہ تو اسکی کوشش یہی تھی کہ ہر سوال کا جواب وہی دے ۔ اسکا کہنا تھا کہ اسکی بیوی ہر طرح سے ٹھیک ٹھاک ہے ،بس ،، اسکا جگر خون نہیں بناتا،، ۔ میں چڑ گیا، میں نے کہا ،، میاں بیمار تم ہو یا تمہاری بیوی؟ اوریہ تمہیں ٹھیک لگتی ہے ؟ اگر یہ ٹھیک ٹھاک ہے تو کیوں لیے پھرتے ہو اسے حکیموں اور ڈاکٹروں کے پاس! کیا کسی حکیم ، کسی ڈاکٹر نے اسے جگر کا کوئی روگ تشخیص کیا ہے ؟ بیمار کو اپنا احوال خود بیان کرنے دو ،، میری برہمی پر وہ خاموش ہوا تو میں نے اس لڑکی سے کہا ؛ ،،ہاں تو بتاؤ کیا ہوا ہے ہماری بیٹی کو ؟ ،، میرے سوال پر اسکی آنکھوں میں نمی سی ابھری ، اور غائب ہوگئی، اسنے کہا ؛ ،، شدید کمزوری ہے ، دل گھٹتا ہے اور چکر اتے ہیں،، میرے کریدنے اور اکسانے پر اسنے جو علامات بتائیں اور جو مشاہدے میں آئیں انکا خلاصہ حسب ذیل ہے : خون کی نمایاں کمی، چہرہ پیلا پھٹک،آنکھوں اور منہ کی جھلیاں زردی مائل ، زبان پر ہلکے سی سفید میل کی تہہ، ہتھیلیوں پر جھریاں، ناخن پتلے کمزور اور ان پر لائینیں،بھوک نہیں لگتی ، کھالے تو لگتا ہے جیسے غذا ، ایسو فیگس میں ہی رکی ہوئی ہے، لگتا ہے جیسے غذا کی نالی تنگ ہو گئی ہے لقمہ پھنس پھنس کے گذرتا ہے ، کھانے کے بعد بسا اوقات متلی اور کبھی کبھی قے، اکثر معدے میں درد ،اپھارہ، پاخانہ بار بار تو نہیں لیکن اکثر پتلا آتا ہے، رنگت کا پتہ نہیں، جو بھی کھائیں دیر تک اسی غذا کے ڈکار آتے رہتے ہیں ،زبان درد کرتی ہے جیسے اس میں سوزش ہو، یا جل گئی ہو، صبح کے وقت منہ کا ذائقہ اتنا گندا اور بدبو دار ہوتا ہے کہ ابکائی آتی ہے ، رات اور خصوصاً صبح کے وقت حلق خشک رہتا ہے۔پیاس کم لگتی ہے ، پیشاب بار بار جلن کے ساتھ آتا ہے جو کبھی پیلا ہوتا ہے تو کبھی پانی کیطرح، ذرا سا چلنے اور مشقت سے سانس پھول جاتا ہے، دھڑکن بڑھ جاتی ہے اور اتنی گھبراہٹ ہونے لگتی ہے کہ جیسے غشی آ جائے گی ، کبھی کبھی غشی آ بھی جاتی ہے ، کبھی دل میں ہلکا ہلکا درد محسوس ہونے لگتا ہے ،نظر میں دھندھلاہٹ ،اکثر شام کے وقت یا رات کو ہلکا ہلکا بخارر محسوس ہوتا ہے اور سردی لگتی ہے ، لیکن گرمی برداشت نہیں ہوتی اسلیے کچھ بھی اوڑھنا پسند نہیں ، اس سے شدید گھٹن محسوس ہوتی ہے ، ٹانگین ہر وقت بوجھل اور ٹخنے متورم رہتے ہیں ، ٹخنے ہلکے ہلکے دکھتے بھی ہیں ۔ اکثر سر میں بھاری پن کے ساتھ درد ، سر درد کا کوئی مخصوص وقت نہیں، پریشانی کی حالت میں لازماً اور ویسے بھی سر درد ہو جاتا ہے ۔ لڑکی کا لہجہ دھیما، تلخی آمیز لیکن ملائمت بھرا تھا ، صاف لگتا تھا کہ کوئی روگ اپنے اندر دبائے بیٹھی ہے۔ اپنی گھریلو اور سماجی زندگی کے بارے میں ہر سوال کا جواب اسنے روایتی انداز میں دیا ؛ ،، ایسی کوئی بات نہیں !،، سب بلکل ٹھیک ٹھاک ہے !،،۔ ان میاں بیوی کے مطابق مختلف حکیموں اور ڈاکٹروں کو دکھایا گیا اور انکے تجویز کردہ طرح طرح کے فولادی ٹانک، گولیاں ،کیپسولز اور انجکشنز دیے جاتے رہے ہیں ، جس سے بسا اوقت وقتی فا ئدہ ضرور ہوا لیکن،، جگر ،، ایسا ڈھیٹ ثابت ہوا کہ اتنے چابک کھانے کے باوجود خون بنانے سے انکاری تھا ۔ کچھ دوائیں میرے ذہن میں ابھریں لیکن میں کیس کو پوری طرح کنفرم کرنا چاہتا تھا۔میں نے اسکے شوہر سے کہا ؛ ،، دیکھو میاں! اسکو کتنی شکائیتیں ہیں ، مجھے تو صرف جگر ہی نہیں اسکا دل اور دماغ بھی ٹھیک نہیں لگتا ،اسی لیےکوئی دوا کام نہیں کر رہی ، مجھے لگتا ہے کہ بچپن کی کسی بیماری کا اثر ہے، یہ رپورٹس میرے پاس چھوڑجائیں، میں انہیں غور سے دیکھ لوں، ذرا سوچ سمجھ کے اسے دوا دوں گا ،، اور اس لڑکی سے کہا کہ وہ کل اپنی ماں یا ابو کے ساتھ آئے۔ اگلے دن وہ اپنی ماں کے ساتھ آئی ، اسکی ماں سے میری تفصیلی بات چیت ہوئی ، اسنے بتایا کہ اسکی یہ بچی شادی سے پہلے بلکل صحتمند تھی ، اسے کبھی کوئی گھمبیر عارضہ نہیں ہوا تھا ، شادی کے بعد سے ہی اسکی صحت جواب دینے لگی ،گھر میں بہت لاڈلی تھی ، بڑی ہو جانے کے باوجود اپنی ماں یا باپ کی گود میں گھسی رہتی تھی ، اسے اپنے ابو کی گود میں سر رکھ کر لیٹنا بہت پسند تھا ،اسکی شادی اسکی سگی خالہ کے بیٹے سے ہوئی ہے ، وہاں اسے کوئی تنگی نہیں ہے ، خاوند بھی اچھا ہے،بس خالہ اور خالو ذرا مزاج کے تیز اور وہمی ہیں ۔ گھر میں انکے ساتھ ایک دیور ایک نند اور ساس سسر ہی رہتے ہیں ، ملازمت یہ خود اپنے شوق سے کر رہی ہے ورنہ گھر میں روپے پیسے کی کمی نہیں۔ میاں بیوی میں کوئی جھگڑا نہیں ہے ۔ماں باپ بھی اسی شہر میں رہتے ہیں ، ملنے جلنے میں بھی دقت نہیں۔ میں نے لڑکی کے سر پر پیار سےہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ؛ ،،بٹیا رانی !تم میری بیٹی کی ہم عمر ہو ، وہ بھی بلکل تمہارے جیسی خوبصورت گڑیا ہے ، تمہارا جگر بلکل ٹھیک ہے ، تمہیں کوئی ،، باہروالی کسر،، بھی نہیں ہے ، بلکہ اندر والی کسر ہے ، مجھے بتاؤ کیا روگ پال رکھا ہے تم نے اپنے اندر؟مجھے لگتا ہے تم سسرال میں خوش نہیں ہو !،، میرے شفقت بھرے انداز نے جیسے اسکے دل کو چھو لیا اور بند کواڑوں کو کھول دیا ،پہلے اسکی آنکھوں سے آنسو نکلے اور پھر دل کی بات۔ اسنے بتایا کہ؛ ” سسرال میں کوئی اس سے پیار نہیں کرتا ، سب یوں رہتے ہیں جسے باہم خفا ہوں ، یہ کرو ،وہ کرو ، وہ سب کا خیال رکھتی ہے لیکن اسکا کسی کو خیال نہیں ۔ سسر مزاج کے تیز ہیں سبھی ان سے ڈرتے ہیں، میاں زمینداری میں مصروف رہتے ہیں، کئی کئی دن بعد گھر لوٹتے ہیں ،چھ سال ہو گئے شادی کو ہم نے ایک دن بھی اکٹھے بیٹھ کے کھانا نہیں کیا ، گھر کے سارے کام کاج کی ذمہ داری مجھ پر ہے ،گو گھر میں ملازمہ موجود ہے پھر بھی وہ سب کی خدمت کرتی ہے لیکن مجال ہے کہ تعریف کا کوئی کلمہ کسی کے منہ سے نکلے ، سب کے لیے پکاتی ہے اور سب سے آخر میں کھاتی ہے اب تو وہ بھی دل نہیں کرتا۔ میری پہلی بیٹی پیدا ہوئی تو کسی نے خوشی کا اظہار نہیں کیا ، دوسری بیٹی ہوئی تو گھر میں واضح ناگواری نظر آئی، تیسری بیٹی کی پیدائش کے بعد تو سب کا رویہ یوں ہے، جیسے بیٹیاں میں خود اپنی پسند سے لے کے آئی ہوں، ہر بار میری ساس اور خاوند نے بیٹے کی اتنی پر زور فرمائش کی جیسے میں نے بیٹی یا بیٹا بنانا ہے۔ وہ مجھے برا بھلا تو نہیں کہتے لیکن مجھے لگتا ہے جیسے میری کوئی وقعت اور اہمیت ہی نہیں ۔ کوئی مجھے نہ سراہتا ہے نہ مجھ سے پیار کرتا ہے ،بس اسی وجہ سے پریشان رہتی ہوں ، میرے سر کے بال دیکھیں (اسنے دوپٹہ اتار کر اس نے اپنے بال دکھائے) پہلے یہ لمبے اور گھنے ہوا کرتے تھے ، اب دیکھیں کتنے خشک اور بے رونق ہو گئے ہیں ، گر گر کر بس اتنے سے رہ گئے ہیں ۔پہلے سر درد رہنے لگا اور پھر دیگر تکالیف بھی پیدا ہوگئیں (جنکا ذکر اوپر آچکا ہے ) اسنے بتایا کہ بند اور گرم جگہوں پر اسے گھٹن ہوتی ہے، اسے کھلی ٹھنڈی ہوا میں ٹہلنا اچھا لگتا ہے خواہ کتنی ہی سردی کیوں نہ ہو ، گو کہ اسے سردی زیادہ لگتی ہے ، تاہم گھٹن برداشت نہیں ہوتی ، کھلی فضا میں اسکی تمام علامات میں کمی آجاتی ہے۔ ،، میرے ذہن نے تمام مرضیاتی علامات کو مسترد کرتے ہوئے کیس کا تجزیہ کچھ یوں کیا : ،، لاڈ پیار کی خواہش۔ دوسروں کی ہمدردی اور توجہ کی طلب۔ شکوہ کہ کوئی اس سےپیار نہیں کرتا ۔ دل میں شکوے اور غم چھپائے ہوئے۔ ملائمت بھرا لہجہ ۔ گرمی، گھٹن، کھلی ہوا اور فضا کی طلب۔ ٹھنڈی اور کھلی ہوا میں ٹہلنے سے تکالیف میں افاقہ۔،، اسکی زندگی میں کوئی نمایاں ان بن نہیں تھی ۔ سوائے معمولی رویوں کی خرابی کے ، جسے وہ دل پہ لے بیٹھی تھی ، جو اسکے دل میں پھانس کی طرح چبھ گئے تھے ،مجھ بس اسی،، پھانس،، کو نکالنا تھا ۔ میں نے مریض کی ان مزاجی علامات کو اوپر انڈر لائن کی گئی علامات سے جوڑا تو میرے ذہن نے کہا؛ ،،پلسٹیلا !،، اب میرا کیس سو فیصد کنفرم تھا اسےاللہ کا نام لیکر پلسٹیلا 10 ایم کی دو خوراکیں دی گئیں اور ایک ایک گھنٹے کے وقفے کھانے کی ہدائت کی گئی۔ اور ساتھ میں 15 دن کے لیے پلاسیبو دیکر رخصت کردیا ۔ دو ہفتے کے بعد اسکا ایچ بی گیارہ تھا ، بھوک بھی کھل گئی تھی اور دیگر علامات میں بھی نمایاں افاقہ ہو، اسے مزید پندرہ دن کے لیے پلاسیبو دی گئی۔ آئندہ چیک اپ پہ ایچ بی دس تھا اور سر درد کی کیفیت بھی دیکھی گئی تو پلسٹیلا ففٹی ایم میں ایک خوراک کھلائی گئی ۔ دو ہفتے بعد اسکا ایچ بی 13 تھا ، چہرہ بھی گلابی نظر آنے لگا تھا ،بھوک بھی لگنے لگی تھی ، اسکا ،، جگر خون بنانے لگا تھا ،، ۔اسکے چہرے پہ مسکراہٹ بھی آن بسی تھی ۔ اسکے بعد اسے مزید دوا کی ضرورت نہیں پڑی ، نہ خون کی کمی رہی نہ جگر سے کوئی شکوہ ! وہ دھان پان سی پیلی پھٹک لڑکی ، ایک سرخ و سپید رنگت کی صحتمند دوشیزہ دکھنے لگی ۔ تقریباً ڈیڑھ سال بعد وہ ایک گول مٹول بچے کے ساتھ میرے کلینک پہ آئی صحتمند اور چاق چو بند ! اسنے پوچھا ؛ ،، ڈاکٹر صاحب آپ نے مجھے پہچانا ؟،، میں نے کہا،، کیوں نہیں ! سناؤ اب آپ کے سسرال کا رویہ آپ کے ساتھ کیسا ہے ؟،، اسنے کہا ؛ ،، ڈاکٹر صاحب ! وہ ویسے کے ویسے ہی ہیں ، لیکن میں نے ٹینشن لینی چھوڑ دی ہے ، اللہ نے مجھے یہ بیٹا دیا ہے ، اب میں اپنے بچوں کے ساتھ خوش رہتی ہوں،، ہو میو پیتھک ادویات حالات کو تو نہیں بدل سکتیں ، سوچ کو بدل دیتی ہیں ! #ہومیوپیتھی #ذھنی_اور_نفسیاتی_مسائل